سود کی رقم کے کر شمے
بڑا بیٹا قرآن حفظ کررہا تھا اور تعلیم بھی حاصل کررہا تھا پھروہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر یو۔کے پڑھنے چلا گیا اوروہاں بھی پڑھائی چھوڑ دی اور نوکری شروع کردی‘ جو رقم بھی کماتا ہے جوئے خانے میں جاکر ہار جاتا ہے‘ لیکن ہر بار اس کے اندر ایک آگ بھڑکتی ہے کہ اس بار تو ہارا ہوں لیکن اگلی بار میں ہزاروں لاکھوں پاؤنڈ ضرور کماؤں گا۔۔۔ لیکن ۔۔۔!ابھی تک اس کے گھر میں غربت اور فاقے چل رہے ہیں‘ پاکستان واپس آنے کیلئے پیسے نہیں حتیٰ کہ اب وہاں غیرقانونی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی شادی بھی نہیں ہوئی نہ دن‘ نہ قبر‘نہ آخرت‘ نہ موت‘ نہ اللہ‘ نہ رسول اور نہ ہی دنیا ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔سر پر بہت زیادہ قرض ہے‘ اتنا قرض کہ راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ گھرمیں بیماریاں‘ مسائل اور مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ ہم گھبرا کر کہتے ہیں کہ سارے اجتماعی خودکشی کرلیتے ہیں۔ شادی کو بیس سال ہوئے ایک دن بھی سکھ کا نہیں دیکھا۔میرے شوہر کافی پڑھے لکھے ہیں‘ یورپ مڈل ایسٹ میں زندگی کے دن رات گزارے۔ اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں‘ گھر میں بات کچھ نہیں ہوتی اورخوامخواہ لڑائی جھگڑا ہوجاتا ہے۔ ایک مشکل ختم نہیں ہوتی ‘دوسری شروع ہوجاتی ہے۔ زندگی کا چین‘ سکون ختم ہوگیا ہے‘ اولادوں کی شادیاں نہیں ہوتیں‘ نسلیں ویران ہوچکی ہیں۔ ہر دن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس زندگی کا یہ آخری دن ہے۔‘‘میں ان کی بات توجہ اور غور سے سن رہا تھا۔ ابھی ان کی بات جاری تھی ‘ سانس لینے کو رُکے تو میں نے ایک چبھتا ہوا انوکھا سوال کرلیا۔ آپ کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ اور یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ بس ان کی ساری ادھوری کہانی کوان کے ایک فقرے نے پورا کردیا اور ساری سوچوں کے دھاروں کو ایک انو کھے لفظ نے پورا کردیا‘ ان کے سارے دکھوں‘ روگوں‘ مسائل اور مشکلات کو الجھتے سسکتے‘ بدترین بھیانک منظر کو ان کے ایک چھوٹے سے سوال نے مکمل کرنے پرمجبور کردیا۔ وہ سوال کیا تھا؟ وہ کون سا بھیڑیا ہے جو ہماری سکھ کی بکریوں اور چین کی بھیڑوں کو کھا جاتا ہے۔ وہ کونسا سا سانپ ہے جو ہمیں ڈس کر زہریلی نیند میں سلا رہا‘ وہ کون سا بچھو ہے جس نے ہمیں ڈنک مار کر تڑپنے پر مجبور کردیا ہے۔ میں نے اپنا سوال اس روتے‘ سسکتے خاندان کے سامنے پھر دہرایا اس کا جوجواب ملا وہ جواب یہ تھا کہ دراصل ہم نے اپنی رقم ایک بینک میں منافع کے طور پر رکھی ہوئی ہے اور اسی کا منافع آتا ہے اور ہمارا سارا گھر کھاتا ہے پھر وہ خاتون خود ہی کہنے لگی: یہی مشکوک رزق ہے جو پہلے دن سے ہمارے گھر آیا اور اسی رزق نے ہی ہمارے گھر کے چین‘ سکھ اور راحت کو لوٹ لیا۔ قارئین! کیا خیال ہے اس خاتون نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب دیا کیا یہ بات صحیح ہے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں